دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ عوام الناس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید سے جو بال نکلتے ہیں، وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوتے ہیں، اس کی کوئی حقیقت ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عوام الناس میں بعض غلط فہمیاں ایسی رائج ہو چکی ہیں جو بظاہر عقیدت و محبت کے مظاہر لگتی ہیں، لیکن حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان ہی میں ایک مشہور غلط فہمی یہ ہے کہ قرآنِ مجید سے نکلنے والے بال سرکارِ دو عالم، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہوتے ہیں۔یہ تصور اگرچہ بظاہر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت معلوم ہوتا ہے، مگر اس کی کوئی شرعی یا علمی بنیاد موجود نہیں۔ نہ کسی معتبر عالمِ دین نے اس کی تصدیق کی ہے، نہ مستند کتب میں اس کا ذکر ملتا ہے، اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی روایت موجود ہے۔
یقیناًحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک اور دیگر آثارِ نبوی کی تعظیم و توقیر ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر صاحبِ ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک بال، دنیا و مافیہا سے اعلیٰ و ارفع ہے، اور اگر ساتوں آسمان و زمین بھی جمع ہو جائیں، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کی عظمت کو نہیں پہنچ سکتے۔ تاہم اس کے لئے کم از کم یہ بھی توضروری ہے کہ اس بال کا موئے مبارک ہونا شرعی ثبوت سے ثابت ہو، ورنہ اپنی طرف سے کسی عام بال کو موئے مبارک قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تلاوت کے دوران قرآن مجید عام طور پر طویل وقت تک کھلا رہتا ہے اور دوسری طرف، روزمرہ کے معمولات میں انسانی بالوں کا ٹوٹنا اور گرنا ایک طبعی و معمولی امر ہے۔ ایسی صورت میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید سے نکلنے والے بال ہمارے یا ہم جیسے کسی دوسرے ہی کے ہوتے ہیں۔لہذا مذکورہ بنیاد پر کسی بال کو موئے مبارک قرار دینا عقلی، نقلی اور شرعی کسی بھی اعتبار سے درست و جائز نہیں، اور نہ ہی ایسے بالوں کو موئے مبارک سمجھا اور ان کا احترام کیا جائے گا، بلکہ قرآن مجید سے نکال کر انہیں عام انسانی بالوں کی طرح دفنا یا کسی سائیڈ پر ڈال دیا جائے۔
صحيح بخاری میں موئے مبارک کے حوالے سے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان کی حلاوت سے لبریز یہ جملہ مذکور ہے:
”لأن تكون عندي شعرة منه أحب إلي من الدنيا وما فيها“
اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔ (صحیح البخاری، ج01، ص45، رقم: 170، مطبوعہ سلطانیۃ)
سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”پھر ان تمام آثار وتبرکات شریفہ سے ہزاروں درجے اعظم واعلٰی واکرم واولٰی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ناخن پاک کا تراشہ ہے کہ یہ سب ملبوسات تھے اور وہ جزء بدن والا ہے اور اس سے اجل و اعظم و ارفع واکرم حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ریش مبارک کا موئے مطہر ہے مسلمانوں کا ایمان گواہ ہے کہ ہفت آسمان وزمین ہر گز اس ایک موئے مبارک کی عظمت کونہیں پہنچتے۔“ (فتاوی رضویہ، ج21، ص415-416، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اسی طرح کی افواہوں کے سبب لکھتے ہیں: ”فلاں چیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استعمال کی ہوئی ہے اس کے ثبوت کی حاجت ہے۔“ (فتاوی شارح بخاری، ج01، ص479، دائرۃ البرکات گھوسی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0642
تاریخ اجراء: 01ربیع الثانی 1447ھ/25ستمبر 2025 ء