دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا روح کو بھی موت ہے؟ قیامت کے وقت جب ہر ایک چیز فنا ہوجائےگی اور الله اپنے باقی ہونے کا اعلان فرمائے گا، تو کیا اس وقت روح کو بھی موت آجائے گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
روحِ انسانی کو کبھی موت نہیں آتی۔ موت روح کے جسم سے جدا ہو جانے کا نام ہے،لہذا جسم مرتا ہے روح نہیں۔ روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ شریعت مطہرہ کی رُو سے جب ایک بار روح کو پیدا کر دیا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے باقی رہتی ہے، اس پر کبھی فنا طاری نہیں ہوتی حتیٰ کہ قیامت کے دن جب ساری مخلوق فنا ہو جائے گی، تب بھی روح باقی رہے گی کہ درست قول كے مطابق یہ ان مستثنی اشیاء میں سے ہے، جن پر اس وقت بھی فنا طاری نہیں ہوگی۔
ارشاد خداوندی ہے:”وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰه“ترجمہ کنز العرفان: اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے۔ (سورہ زمر: 68)
مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
فتكون آية الاستثناء مفسرة لقوله تعالى (كل شيء هالك إلا وجهه، كل نفس ذائقة الموت) وغيرهما من الآيات۔۔۔قال الامام النسفي فى بحر الكلام قال اهل الحق اى اهل السنة و الجماعة سبعة لا تفنى العرش و الكرسي و اللوح و القلم و الجنة و النار و أهلهما من ملائكة الرحمة و العذاب و الأرواح اى بدلالة هذه الآية
مذکورہ آیت میں موجود استثناء، ان فرامینِ باری تعالیٰ: ”اس کی ذات کے علاوہ ہر چیز ہلاک ہوجائے گی۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔“ اور اس مفہوم کے دیگر فرامینِ خداوندی کی تفسیر ہے۔۔۔ امام نسفی نے بحر الکلام میں فرمایا :اہل حق یعنی اہل سنت وجماعت نے فرمایا: (اس آیتِ مبارکہ کی دلالت کےسبب )سات چیزیں فنا نہیں ہوں گی: عرش، کرسی، لوح وقلم، جنت اور اس میں موجود رحمت کےفرشتے وغیرہ، جہنّم اور اس میں موجود عذاب کے فرشتے وغیرہ اور روحیں۔ (روح البیان، ج 08، ص 137، دار الفكر، بيروت)
علامہ آلوسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
اختلف الناس في الروح هل تموت أم لا؟ فذهبت طائفة إلى أنها تموت لأنها نفس و كل نفس ذائقة الموت وقد دل الكتاب على أنه لا يبقى إلا اللہ تعالى وحده... وقالت طائفة: إنها لا تموت للأحاديث الدالة على نعيمها وعذابها بعد المفارقة إلى أن يرجعها اللہ تعالى إلى الجسد، و إن قلنا بموتها لزم انقطاع النعيم والعذاب، و الصواب أن يقال: موت الروح هو مفارقتها الجسد فإن أريد بموتها هذا القدر فهي ذائقة الموت و إن أريد أنها تعدم ، فهي لا تموت بل تبقى مفارقة ما شاء اللہ تعالى ثم تعود إلى الجسد و تبقى معه في نعيم أو عذاب أبد الآبدين ودهر الداهرين وهي مستثناة ممن يصعق عند النفخ فی الصور
اس بارے میں اختلاف ہے کہ روح مرتی ہے یا نہیں؟ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ روح مرتی ہے کیونکہ یہ بھی نفس ہے اور ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔قرآن پاک کی وہ آیت اس پر دلیل ہے جس میں فرمایا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا۔۔۔ جبکہ دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ روح نہیں مرتی،ان کی دلیل وہ احادیثِ طیبہ ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ روح جسم سے جدا ہونے کے بعد سےواپس جسم میں لوٹائے جانے تک انعام یا عذاب پاتی ہے ، اگر ہم روح کی موت کے قائل ہوجائیں تو انعام اور عذاب منقطع ہوجائے گا۔ درست یہ ہے کہ یوں کہا جائے:اگر موت سے مراد اس کا جسم سے جدا ہونا ہے تو اس حد تک درست ہے اور ان معنوں میں یہ بھی موت کا مزہ چکھنے والی ہے، تاہم اگر مراد یہ ہے کہ روح بلکل ہی معدوم ہوجائے گی، تو ان معنوں میں یہ نہیں مرتی، بلکہ جسم سے جدا ہونے کے بعد بھی جتنا اللہ چاہے باقی رہتی ہے اس کے بعد جسم میں لوٹ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہمیشہ نعمت یا عذات میں رہتی ہے، لہذا یہ صور پھونکنے کے سبب جو ساری مخلوق بیہوش ہوجائیں گی، اس سے مستثنی ہے۔ (روح المعانی، ج 08، ص 151 - 152، دار الكتب العلمية، بيروت)
امام نسفی کی تصنیف ”بحر الکلام“ کی نص بھی ملاحظہ ہو:
قال أهل السنة والجماعة: الجنة والنار هما دارا الخلد، و هما للثواب والعقاب، فلا یفنیان۔يدل عليه قوله تعالى:﴿وَ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَوَاتِ وَ مَن فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَن شَاءَ اللّٰهُ﴾ [الزمر : ٦٨] يعني الجنة والنار وأهلهما من ملائكة العذاب و الحور العين. وقال أهل السنة والجماعة سبعة لا تفنى العرش، والكرسي، والقلم، والجنة، والنار، وأهلهما، والأرواح
اہل سنت وجماعت نے فرمایا:جنت اور جہنم یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں کہ یہ ثواب و عقاب کے لئے ہے، لہذا فنا نہیں ہوں گے۔ اس پر مذکورہ بالا آیت دلیل ہے کہ ”اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے“یعنی جنت، جہنم اور ان میں موجود عذاب کے فرشتے اور حوریں فنا نہیں ہوں گی۔ اہل سنت و جماعت کا قول ہے کہ سات چیزیں فنا نہیں ہوں گی: عرش، کرسی، قلم، جنت، جہنّم، ان میں موجودمخلوق اورروحیں۔(بحر الکلام، ص 199، مطبوعہ دار الفتح)
”شرح الصدور بشرح حال الموتی و القبور“ میں ہے:
ذهب أهل الملل من المسلمين وغيرهم إلى أن الروح تبقى بعد موت البدن۔۔۔فهل يحصل لها عند القيامة فناء ثم تعاد توفية بظاهر قوله تعالى﴿كل من عليها فان﴾ أولا بل تكون من المستثنى في قوله ﴿إلا من شاء الله﴾قولان حكاهما السبكي في تفسيره المسمى بالدر النظيم وقال الأقرب أنها لا تفنى وأنها من المستثنى كما قيل في الحور العين إنتهی
مسلمان اور دیگر اہل ملل اس رائے کی طرف گئے ہیں کہ بدن کی موت کے بعد روح نہیں مرتی بلکہ باقی رہتی ہے۔۔۔ قیامت کے وقت” كل من عليها فان“ والی آیت کے ظاہر کو پورا کرنے کےلئے روح فنا ہوگی اور پھر اسےو اپس لوٹا دیا جائے گا یا فنا ہی نہیں ہوگی، اور ”الا من شاء اللہ“کی بنیاد پر مستثنی قرار پائے گی؟ اس بارے میں دو قول امام سبکی نے اپنی تفسیر در نظیم میں بیان کئے اور فرمایا: اقرب یہ ہے کہ روح فنا نہیں ہوگی او ریہ مستثنی ہے، جیسا کہ حوروں کے بارے میں کہا گیا ہے، انتہی۔ (شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، ص 316،دار المعرفة – لبنان)
امام سبکی، اما م ابوالحسن اشعری علیہما الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
و تردد في فناء الروح عند قيام القيامة قال و الأظهر أنها لا تفنى أبدا
جب قیامت قائم ہوگی اس وقت روح فنا ہوگی یا نہیں؟ اس بارے میں امام ابو الحسن اشعری کو تردد تھا، تاہم انہوں نے فرمایا :اظہر یہ ہے کہ روح کبھی بھی فنا نہیں ہوگی۔ (طبقات الشافعیۃ، ج 10، ص 295، هجر للطباعة و النشر و التوزيع)
شرح النووي علی مسلم،مرقاۃ المفاتیح اور فتاوی حدیثیہ ميں ہے،
و اللفظ للاول: قال القاضي أن الأرواح باقية لاتفنى فينعم المحسن و يعذب المسيء وقد جاء به القرآن والآثار وهو مذهب أهل السنة
قاضی عیاض مالکی نے فرمایا: روحیں باقی رہیں گی فنا نہیں ہوں گی، نیکوں کو انعام اور بدوں کو عذاب دیا جائےگا،اسی کی تائید میں قرآن و آثار وارد ہیں او ریہی اہل سنت کا مذہب ہے۔(شرح النووی علی مسلم، ج 13، ص 31، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”موت فنائے روح نہیں بلکہ وہ جسم سے روح کا جدا ہونا ہے۔ روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ حدیث میں ہے
انما خلقتم للابد:تم ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے بنائے گئے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 09، ص 657، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
فتاوی رضویہ کے ایک دوسرے مقام میں ہے: ”اہلسنت کا مذہب یہ ہےکہ روح انسانی بعد موت بھی زندہ رہتی ہے، موت بدن کے لئے ہے روح کے لئے نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج 29، ص 103، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
بہار شریعت میں ہے:” موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص 104، مکتبۃ المدینۃ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0631
تاریخ اجراء: 07 ربیع الاول1447ھ/01 ستمبر2025ء