
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
د نیا میں جو انسانوں کے مابین الفت و تعلق پایا جاتا ہے، یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ عالمِ ارواح میں ان کی روحیں آپس میں جان پہچان رکھتی تھیں، کیا یہ بات درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! یہ بات درست ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ جو رُوحیں عالَم اَرواح میں ایک دوسرے کو پہچانتی تھیں تو دنیا میں آنے کے بعد بھی اُن کی یہ جان پہچان باقی رہتی ہے۔ لیکن انہیں یہ یاد نہیں ہوتا کہ وہاں جان پہچان تھی یا نہ تھی۔ اَرواح کی یہ اُلفت و اجنبیت اِلہامِ اِلٰہی سے ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نیک، نیکوں کی طرف اور بَد، بَدوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے
الأرواح جنود مجندة فما تعارف منها ائتلف، و ما تناكر منها اختلف
ترجمہ: روحیں مخلوط لشکر تھیں تو ان میں سے جن کی آپس میں جان پہچان تھی، وہ الفت کرتی ہیں اور جن میں اجنبیت تھی وہ الگ رہتی ہیں۔ (صحيح البخاري، جلد 4، صفحہ 133، حدیث: 3336، دار طوق النجاۃ، بیروت)
ذکر کردہ حدیث پاک کے تحت فیضانِ ریاض الصالحین میں ہے ”شیخ عبدالحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: جو رُوحیں عالَم اَرواح میں ایک دوسرے کو پہچانتی تھیں تو دنیا میں آنے کے بعد بھی اُن کی یہ جان پہچان باقی رہتی ہے۔ اَرواح کی یہ اُلفت و اجنبیت اِلہامِ اِلٰہی سے ہوتی ہے انہیں آپس میں یاد نہیں ہوتا کہ وہاں جان پہچان تھی یا نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نیک، نیکوں کی طرف اور بَد، بَدوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر کسی جگہ بعض اَسباب و عوارِض کی وجہ سے اُس کے خلاف ہوتو وہ شاذ و نادِر ہوگا، آخرکار وہ اپنے اصل کی طرف ہی لوٹ کر چلا جائے گا۔“ (فیضانِ ریاض الصالحین، جلد 4، صفحہ 181، حدیث: 371، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4030
تاریخ اجراء: 21 محرم الحرام 1447ھ / 17 جولائی 2025ء