کیا دوسرے کا سلام پہنچانا ضروری ہے؟

کیا دوسرے کا سلام پہنچانا واجب ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید نے بکر کو کہا کہ خالد کو میرا سلام کہہ دینا۔ بکر نے ہامی بھر لی، تو اب اس کےلیے سلام پہنچانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بکر پر واجب ہے کہ وہ خالد کو زید کا سلام پہنچائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بکر نے سلام پہنچانے کی ہامی بھر لی، تو اب اس کےلیے سلام پہنچانا واجب ہو گیا۔ ہاں اگر وہ ہامی نہ بھرتا تو سلام پہنچانا واجب نہیں تھا۔

در مختار مع ردالمحتار میں ہے:

(و لو قال لآخر اقرا فلانا السلام یجب علیہ ذلک) و الظاھر ان ھذا اذا رضی بتحملھا تامل ثم رأیت فی شرح المناوی عن ابن حجر: التحقیق ان الرسول ان التزمہ اشبہ الامانۃ والا فودیعۃ ای فلا یجب علیہ الذھاب لتبلیغہ کما فی الودیعۃ

یعنی ایک شخص نے دوسرے کو کہا: فلاں کو میرا سلام کہنا، تو اس پر سلام پہنچانا واجب ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم اسی صورت میں ہے جب وہ ذمہ داری لینے پر راضی ہوا ہوتو اس میں تامل کرو۔ پھر میں نے شرح مناوی میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے دیکھا کہ تحقیق یہ ہے کہ قاصد سلام پہنچانے کا التزام کرے یعنی ذمہ داری قبول کرلے تو یہ امانت کے مشابہ ہے ورنہ ودیعت ہے یعنی اس صورت میں سلام پہنچانے کےلیے جانا اس پر واجب نہیں ہوگا جیسے ودیعت کا حکم ہے۔ (درمختار مع رد المحتار، جلد 9، صفحہ 685، کوئٹہ)

بہار شریعت میں ہے: ”کسی سے کہہ دیا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اس پر سلام پہنچانا واجب ہے۔۔۔ یہ سلام پہنچانا اس وقت واجب ہے جب اس نے اس کا التزام کر لیا ہو یعنی کہہ دیا ہو کہ ہاں تمہارا سلام کہہ دوں گا کہ اس وقت یہ سلام اس کے پاس امانت ہے جو اس کا حقدار ہے اس کو دینا ہی ہو گا ورنہ یہ بمنزلہ ودیعت ہے کہ اس پر یہ لازم نہیں کہ سلام پہنچانے وہاں جائے۔ اسی طرح حاجیوں سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے دربار میں میرا سلام عرض کر دینا یہ سلام بھی پہنچانا واجب ہے۔ (بہار شریعت، جلد3، حصہ 16، صفحہ 463، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-3340

تاریخ اجراء: 27 جمادی الاولیٰ 1446ھ/ 30 نومبر 2024ء