سانپ کو مارنا جائز ہے؟

سانپ کو مارنے کا حکم؟ کچھ عوامی نظریات

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سانپ کو مارنا جائز ہے یا نہیں؟ عوام میں مشہور ہے کہ سانپ کو نہیں مارنا چاہئے کہ خود وہ سانپ زندہ ہوکر یا اس کی جوڑی یا ناگن نسلوں سے بدلہ لیتی ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سانپ کو ماراجاتا ہے، تو مارنے والے کی تصویر اس کی آنکھوں میں آجاتی ہے جس سے ناگن کو معلوم ہوجاتا ہے، اس لئے سانپ کو پکڑ کر آگ میں ڈال دینا چاہئے تاکہ وہ جل کر مر جائے۔ برائے مہربانی اس حوالے سے بھی رہنمائی فرمائیں کہ کیا سانپ کو پکڑ کر آگ میں ڈال دینا جائز ہے؟

سائل: نور محمد (ناظم آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سانپ ایک موذی(تکلیف دینے والا) جانور ہے، اس کومارنا جائز بلکہ مستحب ہے، کیونکہ متعدد احادیث مبارکہ میں سانپ کو مارنے کی ترغیب موجود ہے، البتہ ایک آدھ استثنیٰ ہے جو آگے بیان کیا جاتا ہے۔

باقی رہا یہ خیال کہ سانپ کو مارنے والے سے خود وہ سانپ ، اس کا جوڑا یا ناگن بدلہ لیتی ہے یا مارنے والے کی تصویر مرے ہوئے سانپ کی آنکھوں میں چَھپ جاتی ہے، محض بے بنیاد اور زمانہ جاہلیت کے باطل نظریات میں سے ہے، احادیث مبارکہ میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی تردید فرمائی اور اس خیال کی بنیاد پر سانپ کو نہ مارنے والے کیلئے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں یعنی وہ ہمارے طریقے کی پیروی کرنے والوں میں سے نہیں۔

نوٹ: اوپر بعض سانپوں کو مارنے سے قبل ان کو تنبیہ کرنے کا کہاگیا ہے، اس تنبیہ کے مختلف طریقے ہیں، جن کو ذیل میں فتاوی رضویہ شریف کے جزئیہ میں ذکر کردیا گیاہے۔

سانپ کو مارنے کے حکم نیز بدلے کے خوف سے اس کو نہ مارنے کے متعلق، مسند امام احمد میں ہے:

عن ابن مسعود، قال:  قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من ترك حية مخافة عاقبتها فليس منا

ترجمہ: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے سانپ کو اس کے انجام کے ڈر سے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسند احمد، ج 07، ص 91، مؤسسة الرسالة)

مجمع الزوائد میں ہے:

عن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ - صلى اللہ عليه و سلم -: اقتلوا الحيات، فمن خاف ثأرهن فليس مني.رواه الطبراني في الكبير، و رجاله ثقات

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سانپوں کو قتل کرو تو جس نے ان کے بدلے کے خوف سے ان کو چھوڑ دیا، وہ مجھ سے نہیں۔ اس کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد، ج 04، ص 45، مكتبة القدسي، القاهرة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

(وقال): أي ابن عباس - رضي الله عنهما - مرفوعا (من تركهن): أي قتلهن والتعرض لهن (خشية ثائر): و الثائر طالب الثأر و هو الدم و الانتقام و المعنى مخافة أن يكون لهن صاحب يطلب ثأرها (فليس منا): أي من المقتدين بسنتنا الآخذين بطريقنا. قال شارح: قد جرت العادة على نهج الجاهلية بأن يقال: لا تقتلوا الحيات فإنكم لو قتلتم لجاء زوجها و يلسعكم للانتقام، فنهى رسول اللہ - صلى اللہ عليه وسلم - عن هذا القول و الاعتقاد

ترجمہ: حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا  مروی ہے کہ جس نے بدلہ لینے والے کے خوف کی وجہ سے سانپوں کو قتل نہ کیا اور ان سے تعرض کرنے سے بازرہا وہ ہم میں سے نہیں ، ثائر کہتے ہیں خون کے طلب کرنے والے اور بدلہ لینے والے کو، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو اس خوف سے سانپ کو قتل نہ کرے کہ اس کی طرف سے کوئی دوسرا سانپ بدلہ لیتا ہے تو وہ ہماری سنت کی پیروی کرنے والوں اور ہمارے طریقے کو تھامنے والوں میں سے نہیں۔ شارح علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا کہ جاہلیت کے طریقے پر یہ عادت جاری ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ سانپوں کو قتل نہ کرو کیونکہ اگر تم نے ان کو قتل کیا تو ان کا جوڑا آئے گا اور بدلہ میں تم کو ڈس لے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس قول اور نظر یہ سے منع فرمایا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج 07، ص 2679،دار الفكر، بيروت لبنان)

فیض القدیر میں ہے:

(من رأى حية فلم يقتلها مخافة طلبها) أي أن يطالب بدمها في الدنيا والآخرة و يحتمل أن المراد مخافة أن تطلبه هي فتعدو عليه (فليس منا) أي ليس من العاملين بأوامرنا المراعين لقوانيننا

ترجمہ: جس نے سانپ کو دیکھا اور اس خوف سے قتل نہ کیا کہ وہ اس کو تلاش کرے گا یعنی وہ دنیا و آخرت میں اپنے خون کا مطالبہ کرے گا اور یہ بھی احتما ل ہے کہ مراد یہ ہو کہ وہ سانپ خود اس کو تلاش کرکے اس سے بدلہ لے گا تو وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارے احکام پر عمل کرنے والوں اور ہمارے قوانین کی رعایت کرنے والوں میں سے نہیں۔ (فیض القدیر، ج 06، ص 130، المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

مجمع الزوائد کی حدیث پاک کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے: ”یعنی ہماری سنت کا تارِک ہے۔ پہلے جہلائے عرب کہتے تھےاور جہلائے ہنداب تک کہتے ہیں کہ سانپ کو مارنے والے سے اس کی ناگنی بدلہ لیتی ہے اس لئے سانپ کو مت مارو۔ اس فرمان عالی میں اسی خیال کی تردید ہےبھلا سانپنی یعنی ناگن کو کیا خبر کہ کس نے مارا ہے؟ لوگوں میں مشہور ہے کہ مارے ہوئے سانپ کی آنکھوں میں مارنے والے کا فوٹو آجاتا ہے، اس فوٹو سے ناگن، قاتل کو پہچان لیتی ہے، اس لئے سانپ کو مار کر اس کا سر جلا دیا جاتا ہے تاکہ آنکھوں میں فوٹو نہ رہے مگر یہ بھی غلط ہے۔ (مرآۃ المناجیح، ج 05، ص 678، نعیمی کتب خانہ)

فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”قتل سانپ کا مستحب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نےاس کے قتل کا حکم کیا ہے یہاں تک کہ اس کے قتل کی حرم میں اور محرم کو بھی اجازت ہے اور جو خوف سے چھوڑ دے، اس کے لیے لفظ "لیس منی"حدیث میں وارد۔

جن سانپوں کے مارنے سے بچنا بہتر ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ سفید رنگ کا سانپ جو سیدھا چلتا ہے اورچلنے میں بَل نہیں کھاتا، اس کو اور مدینہ منورہ کے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو بغیر تنبیہ مارنے سے منع کیا گیا ہے، ہاں! اگر وہ سانپ ایسا ہو کہ جس کے جسم پر دو سفید لکیریں ہوتی ہیں، جس کو ذو الطیفتین کہاجاتا ہے، یونہی ابتر نامی سانپ جو نیلے رنگ کا اور چھوٹی دُم والا ہوتا ہے، اس کو بغیر تنبیہ مدینہ منورہ میں بھی مارنا جائز ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ جانور چاہے موذی ہو یا غیر موذی، اس کو آگ میں جلاکر مارنے کی اجازت نہیں، یہ مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ حدیث پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا سانپ کو بھی آگ میں ڈال کر مارنے کی اجازت نہیں۔فتاوی رضویہ میں ہے: ”قتل اسی سانپ کا کہ سپید رنگ ہے اور سیدھا چلتا ہے یعنی چلنے میں بل نہیں کھاتا قبل انذار وتحذیرکے ممنوع ہے، اور اسی طرح وہ سانپ جومدینہ کے گھروں میں رہتے ہیں بے انذار و تحذیرکے نہ قتل کئے جائیں مگرذو الطیفتین کہ اس کی پیٹھ پر دوخط سپید ہوتے ہیں اورابتر کہ ایک قسم ہے سانپ کی کبود رنگ کوتاہ دم، اور ان دونوں قسم کے سانپوں کاخاصہ ہے کہ جس کی آنکھ پر ان کی نگاہ پڑجائے اندھاہوجائے، زنِ حاملہ اگرانہیں دیکھ لے حمل ساقط ہو کہ اس طرح کے سانپ اگرمدینہ طیبہ کے گھروں میں بھی رہتے ہوں تو ان کامارنا بے انذار کے جائزہے۔۔۔ بالجملہ قتل سانپ کامستحب اورسپید اور ساکن بیوت مدینہ کا سوا ذوالطیفتین اورابتر کے بے انذاروتحذیر کے ممنوع ہے مگرطحاوی کے نزدیک بے انذار میں بھی کچھ حرج نہیں او رانذار اولیٰ ہے۔

اسی میں ہے: ”طریقے انذاروتحذیر کے مختلف ہیں، ایک یہ کہ یوں کہاجائے میں تم کو قسم دلاتاہوں اس عہد کی جو تم سے سلیمان بن داؤدعلیہما السلام نے لیاکہ ہمیں ایذامت دو اور ہمارے سامنے ظاہر مت ہو۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کہا جائے ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں بوسیلہ عہدنوح و عہد سلیمان ابن داؤدعلیہم السلام کے کہ ہمیں ایذامت دے، تیسرے یہ کہ میں تمہیں قسم دلاتاہوں اس عہد کی جوتم سے نوح علیہ السلام نے لیا میں تمہیں قسم دلاتاہوں اس عہد کی جو تم سے سلیمان علیہ السلام نے لیا کہ ایذامت دو، چوتھے یہ کہ لوٹ جاخداکے حکم سے،پانچویں یہ کہ مسلمان کی راہ چھوڑ دے۔“ (فتاوی رضویہ، ملخصاً، ج 24، ص 645۔ 652، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

کسی بھی جانور کو آگ سے جلاکر مارنے کی اجازت نہیں اگرچہ وہ موذی ہو، چنانچہ منحۃ السلوک میں ہے:

قوله: (و يكره  إحراق القملة و العقرب و نحوها) مثل الحية۔۔۔۔ (بالنار) لقوله عليه السلام: "لا تعذبوا بعذاب اللہ" رواه ابن ماجة

ترجمہ: جوں، بچھو اور ان جیسے جانوروں جیسے سانپ وغیرہ کوآگ سے جلانامکروہ ہے، حضورعلیہ الصلوۃ و السلام کے اس فرمان کی وجہ سے "اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب مت دو۔" اسے ابن ماجہ نے روایت کیاہے۔ (منحۃ السلوک، کتاب الکراھیۃ، فروع، صفحہ 425، مطبوعہ قطر)

درمختار و رد المحتار میں ہے:

(و في المبتغى يكره إحراق جراد و قمل و عقرب) أي تحريما ومثل العقرب الحية

 ترجمہ: اور مبتغی میں ہے کہ ٹڈی،جوں اور بچھو کو جلانا مکروہ ہے یعنی مکروہ تحریمی ہے اور سانپ کا حکم بھی بچھو کی مثل ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج 06، ص 752،دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0637

تاریخ اجراء: 25 ربیع الاول 1447ھ/19ستمبر 2025ء