سردی اور گرمی سے متعلق حدیثِ پاک

سردی گرمی سے متعلق حدیث پاک کی شرح

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ میں نے ایک حدیثِ پاک سنی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! (آگ کی شدت کی وجہ سے) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو، وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔

پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا اس طرح کی کوئی حدیثِ پاک ہے؟

اگر ایسی حدیث ہے تو جن علاقوں میں بارہ مہینے گرمی یا بارہ مہینے سردی ہی رہتی ہے، دوسرا موسم آتا ہی نہیں تو ان علاقوں کے اعتبار سے اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا؟ وضاحت فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں یہ حدیث پاک بخاری شریف میں موجود ہے چنانچہ

بخاری شریف میں ہے:

عن أبی هريرة، عن النبی صلى اللہ عليه و سلم قال۔۔۔ اشتكت النار إلى ربها، فقالت: يا رب أكل بعضی بعضا، فأذن لها بنفسين، نفس فی الشتاء و نفس فی الصيف، فهو أشد ما تجدون من الحر، و أشد ما تجدون من الزمهرير

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنّم نے اپنے رَب کے پاس شکایت کی کہ میرے بعض اَجزا ءنےبعض کو کھا لیا ہے، تواِسے دو مرتبہ سانس کی اِجازت دی گئی، ایک سردی میں ایک گرمی میں۔ اب سخت گرمی جو تم محسوس کرتے ہو، وہ جہنم کی سانس کی بنا پر ہوتی ہے اور سخت سردی محسوس کرتے ہو تو وہ جہنم کی زمہریر کی بنا پر ہے۔ (صحيح البخاری، جلد 1، صفحہ 113،دار طوق النجاة)

سب جانتے ہیں کہ سورج کی تپش سے گرمی پیدا ہوتی ہے لیکن گرمیوں میں بھی ہر جگہ ایک جیسی گرمی ہو، یہ ضروری نہیں۔ حدیث پاک میں جہنم کے ایک عمل کا ذکر ہے، اس عمل سے زمین کے کتنے حصے پر کیا ظاہر ہوگا اور کیا نہیں؟ اور اس کی سانس کی زد میں سارے علاقے آتے ہیں یا نہیں؟ اور کون سے علاقے آتے ہیں اور کون سے نہیں؟ اس تعلق سے حدیث پاک میں اجمال ہے اور اس کی تفصیل و صراحت نہیں ہے اور نہ ہی اس حدیث کو حقائق کے منافی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حقائق کے منافی تو اس وقت قرار دیا جائے کہ جب حدیث میں یہ بیان کیا ہو کہ ساری زمین دونوں سانسوں کی زد میں ضرور آئے گی۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

و هذا من جملة الحكم الإلهية حيث أظهر آثار الفيح فی زمان الحر، و آثار الزمهرير فی الشتاء لتعود الأمزجة بالحر والبرد، فلو انعكس لم تحتمله، إذ الباطن فی الصيف بارد فيقاوم حر الظاهر، و فی الشتاء حار فيقاوم برد الظاهر وأما اختلاف حر الصيف و برد الشتاء فی بعض الأيام، فلعله تعالى يأمر بأن يحفظ تلك الحرارة فی موضع، ثم يرسلها على التدريج حفظا لأبدانهم وأشجارهم، و كذا البرد

:یعنی یہ الٰہی حکمتوں میں سے ہے کہ اس نے گرمی کے زمانے میں گرمی کے اثرات اور سردیوں میں سردی کے اثرات دکھائے تاکہ لوگوں کے مزاج گرمی سردی کے عادی ہو جائیں۔ اگر اس کا برعکس ہو جائے تو لوگ اس کو برداشت نہیں کر سکیں گے کیونکہ گرمیوں میں اندرونی حصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور باہر کی گرمی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور سردیوں میں یہ گرم ہوتا ہے اور باہر کی سردی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ کچھ دنوں میں گرمی اور کچھ دنوں میں سردی ہوتی ہے تو یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اسی طرح ہو کہ گرمی کومخصوص علاقوں میں رکھا جائے اور پھر اسے آہستہ آہستہ چھوڑاجائے تاکہ لوگوں کے جسموں اور درختوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی طرح سردی کا معاملہ ہے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد 2،صفحہ 527،دار الفكر، بيروت)

اس حدیثِ پاک کے تحت نزہۃ القاری میں ہے: ”اس حدیث پر آج کل یہ بہت اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے، تو یہ ضروری ہونا چاہیے تھا کہ گرمیوں میں دن رات چوبیس گھنٹے یکساں گرمی ہوتی، اسی طرح جاڑوں میں جاڑا بھی۔ نیز پوری دنیا میں ایک ہی ساتھ گرمی اور ایک ہی ساتھ جاڑا رہتا۔ حالانکہ خطِ استواء کے جانبِ شمال جب گرمی پڑتی ہے، تو جانبِ جنوب جاڑا رہتا ہے اور جب اُدھر جاڑا رہتا ہے، تو اِدھر گرمی۔ نیز خطِ استواء پر ہمیشہ موسم معتدل رہتا ہے۔ حالانکہ وہاں بھی گرمی اور جاڑا دیگر بلاد کی طرح رہنا چاہیے۔ اقول و باللہ التوفیق: اگر جہنم ایک ہی سانس لیتا، تو خطِ استواء کے شمالی اور جنوبی بلاد میں موسم کے تضاد سے استحالہ درست تھا۔ حدیث میں ہے: دو سانس لیتا ہے یعنی:پوری دو سانس، ایسا نہیں کہ سانس ایک ہی لیتا ہے، اندر باہر کرنے کو دو سے تعبیر کر دیا۔ پوری سانس کا مطلب ہوتا ہے کہ باہر سے اندر کھینچے اور اندر سے باہر پھینکے۔ جو بلاد اندر کھینچتے وقت اس کی زد میں آتے ہیں وہاں جاڑا پڑتا ہے، جو باہر پھینکنے کی زد میں آتے ہیں وہاں گرمی۔ کبھی شمالی بلاد کی طرف باہر پھینکنے کا رخ ہوتا ہے، تو ادھر گرمی ہوتی ہے اور کبھی جنوبی بلاد کی طرف باہر پھینکنے کا رخ ہوتا ہے، تو ادھر گرمی، اسی طرح جاڑا بھی۔۔ ۔۔ مطلب یہ ہوا کہ اس نواح کے جاڑے میں ایک سانس لیتا ہے اس کی پوزیشن یہ ہوتی ہے کہ اس نواح کے بلاد کے رخ سے سانس اندر کھینچتا ہے اور بلاد جنوبی کی جانب پھینکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بلاد شمالی میں جاڑا رہتا ہے اور بلاد جنوبی میں گرمی۔ اسی طرح نواح مدینہ طیبہ یعنی بلاد شمالی کے گرمیوں کے دنوں میں بلاد جنوبی سے سانس اندر کھینچتا ہے اور بلاد شمالی کی طرف نکالتا ہے اس کے نتیجے میں بلاد جنوبی میں جاڑا اور بلاد شمالی میں گرمی رہتی ہے۔ (نزہۃ القاری، جلد 2، صفحہ 215، مطبوعہ لاہور)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: ”اگرچہ گرمیوں کے موسم میں بعض پہاڑوں اوربعض مقامات پرٹھنڈک رہتی ہے لیکن یہ اس کے خلاف نہیں جیسے سورج کی گرمی ایک ہے لیکن اس کے اثر کا ظہور زمین پرمختلف،کہیں سردی، کہیں گرمی، ایسے ہی ادھربھی ہے کہ بھڑک کی توجہ جہاں زیادہ ہے وہاں گرمی، جہاں کم ہے وہاں سردی،۔۔۔ یعنی دوزخ جب اوپرکو سانس لیتا ہے تو دنیا میں عمومًا سردی کا زورہوتاہے اورجب نیچے کوسانس چھوڑتاہے تو عمومًا گرمی کی شدت۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 380، مطبوعہ گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-3366

تاریخ اجراء: 03 رجب المرجب 1446ھ / 04 جنوری 2025ء