
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میں روزانہ صبح کی نماز کے بعد دعا میں صرف اپنے لیے دعا کرتا ہوں اور ظہر کی نماز کے بعد صرف اپنے گھر والوں کے لیے دعا کرتا ہوں۔ کیا اس طرح دعا کرنا ٹھیک ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر آپ اس کو شرعا لازم نہیں سمجھتے، تو اس طرح دعا کرنا اگرچہ جائز ہے مگر علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تنہا اپنے لیے دعا نہ کرے، دوسروں کے لیے بھی دعا کرے کہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے، اور دیگر فضائل بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ نیز جب دوسروں کے لیے دعا کریں تو اپنے لیے بھی کر لیا کریں۔
فضائل دعا میں ہے: ”ادب ۴۰: جب اپنے لیے دعا مانگے تو سب اہلِ اسلام کو اس میں شریک کرلے۔قال الرضاء: کہ اگر یہ خود قابلِ عطا نہیں کسی بندے کا طُفَیلی ہو کر مراد کو پہنچ جائے گا۔ابو الشیخ اصبہانی نے ثابت بنانی سے روایت کی: ''ہم سے ذکر کیا گیا جو شخص مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے خیر کرتا ہے قیامت کو جب ان کی مجلسوں پر گزرے گا ایک کہنے والا کہے گا: یہ وہ ہے کہ تمہارے لیے دنیا میں دعائے خیر کرتا تھا پس وہ اس کی شفاعت کریں گے اور جناب اِلٰہی میں عرض کر کے بہشت میں لے جائیں گے۔ یہاں تک کہ حدیث میں ہے: ''جو شخص نماز میں مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا نہ کرے وہ نماز ناقص ہے۔قال الرضاء: یہ بھی ابو الشیخ نے روایت کی اور خود قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ
یعنی: مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لیے۔'' (پ۲۶، محمد: ۱۹)
حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ (اے اللہ! میری مغفرت فرما) کہتے سنا، فرمایا: ''اگر عام کرتا تو تیری دعا مقبول ہوتی۔''
دوسری حدیث میں ہے: ایک نے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ وَ ارْحَمْنِيْ (اے اللہ! میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما) کہا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنی دعا میں تعمیم کر کہ دعائے خاص وعام میں وہ فرق ہے جو زمین و آسمان میں۔
صحیح حدیث میں فرماتے ہیں: ''جو سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے استغفار کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مسلمان مرد و مسلمان عورت کے بدلے ایک نیکی لکھے گا۔
رواہ الطبراني في ''الکبیر'' عن عبادۃ بن الصامت رضي اللہ تعالٰی عنہ بسند جیّد
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم: ''جو ہر روز مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے ستائیس ۲۷ بار استغفار کرے ان لوگوں میں ہو جن کی دعا مقبول ہوتی ہے اور ان کی برکت سے خلق(یعنی مخلوق) کو روزی ملتی ہے۔
رواہ أیضاً عن أبي الدرداء رضي اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
خطیب کی حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کو کوئی دعا اس سے زیادہ محبوب نہیں کہ آدمی عرض کرے:
((اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ رَحْمَۃً عَامَّۃً))
الٰہی! اُمتِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم پر عام رحمت فرما۔ اور امام مستغفری کی حدیث میں یہ لفظ ہیں:
((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّۃِ مُحَمَّدٍ مَغْفِرَۃً عَامَّۃً))
الٰہی! اُمتِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی عام مغفرت فرما۔
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں آیا: ''جو تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کرے بنی آدم کے جتنے بچے پیدا ہوں سب اس کے لیے استغفار کریں یہاں تک کہ وفات پائے۔
رواہ أبو الشیخ الأصبھاني
(اس حدیث کو ابو الشیخ اصبہانی نے روایت کیا ہے۔)
فقیر نے اس بارے میں اس لیے احادیث بکثرت نقل کیں کہ مسلمانوں کو رغبت ہو۔ بعض طبائع (طبیعتیں) دعا میں بخل کرتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ خود یہ ان ہی کا نقصان ہے۔ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی دعائے خیر میں مَلا ئکہ آسمان مشغول ہیں
(وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ) جَعَلَنَا اللہُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَحَشَرْنَا فِیْھِمْ بِمَنِّہٖ، آمین۔
یعنی: (اور زمین والوں کے لئے معافی مانگتے ہیں)اللہ عزوجل ہمیں مسلمان رکھے اور اپنے کرم سے ان ہی کے ساتھ ہمارا حشر فرمائے۔ آمین۔ (فضائل دعا، صفحہ 86- 89، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2126
تاریخ اجراء: 26 رجب المرجب 1446ھ / 27 جنوری 2025ء