
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک مقرر صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ زمین گائے کے سینگ پر ہے، جب وہ اپنا سینگ بدلتی ہے تو زلزلہ آتا ہے۔ اور ایک مقرر نے بیان کیا کہ زمین مچھلی کے اوپر ہے۔ تو یہ دو طرح کی باتیں ہیں۔ کیا یہ درست ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
کتابوں میں دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں اور ان میں یوں تطبیق دی جاسکتی ہے کہ زمین گائے کے سینگ پر ہے جبکہ گائے مچھلی پر کھڑی رہتی ہے۔ البتہ یہ کہنا کہ گائے سینگ بدلتی ہے تو زلزلہ آتا ہے جیسا کہ عوام میں بھی مشہور ہے، یہ محض بے اصل ہے۔ اس کے آنے کی اصل وجہ بندوں کے گناہ ہیں۔ اور یہ آتااس طرح ہے کہ اللہ تعالی نے ساری زمین کوگھیرے میں لینے والاپہاڑپیدافرمایاہے، جس کانام "قاف" ہے، کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کے ریشے زمین میں نہ پھیلے ہوں، جس جگہ زلزلہ کے لیے اللہ تعالی کا ارادہ ہوتاہے، قاف کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے وہاں کے ریشے کو حرکت دیتا ہے، صرف وہیں زلزلہ آتاہے، پھر جہاں آہستہ کا حکم ہوتا ہے، وہاں آہستہ اور جہاں شدید کا حکم ہوتا ہے، وہاں شدید آتا ہے۔
مچھلی والی روایت کے متعلق تفسیر طبری، تفسیر سمرقندی، تفسیر در منثور، تفسیر بغوی وغیرہ میں ہے
(و اللفظ للاخیر): عن ابن عباس قال: أول ما خلق الله القلم، فجرى بما هو كائن إلى يوم القيامة، ثم خلق النون فبسط الأرض على ظهره فتحرك النون فمادت الأرض، فأثبتت بالجبال
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے ان مخلوقات میں سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اس سے قیامت تک کے تمام مقادیر لکھوائے پھر مولٰی عزوجل نے مچھلی پیدا کی اس کی پیٹھ پر زمین بچھائی، پس مچھلی نے حرکت کی تو زمین جھونکے لینے لگی۔ اس پر پہاڑ جما کر بوجھل کردی گئی۔ (تفسیر بغوی، جلد 5، صفحہ 129، دار احیاء التراث العربی)
ان میں تطبیق کے متعلق ارشاد الساری میں ہے
و ذكر البغوي وغيره أن على ظهر هذا الحوت صخرة سمكها كغلظ السماوات والأرض وعلى ظهرها ثور له أربعون ألف قرن وعلى متنه الأرضون السبع وما فيهن وما بينهن فالله أعلم
ترجمہ: اور امام بغوی وغیرہ مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ اس عظیم مچھلی کی پشت پر ایک چٹان ہے، جس کی موٹائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے، اس چٹان کے اوپر ایک بیل ہے، جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں۔ اور اسی کے بدن پر ساتوں زمینیں، ان کے اندر جو کچھ ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، سب رکھا گیا ہے۔ باقی اللہ تعالی ہی بہتر جاننے والا ہے۔ (ارشاد الساری، جلد 7، صفحہ 398، مطبوعہ: مصر)
البتہ زلزلے کا سبب یہ نہیں، چنانچہ فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا ”نسبت زلزلہ مشہور ہے کہ زمین ایک شاخِ گاؤ پر ہے کہ وہ ایک مچھلی پر کھڑی رہتی ہے۔ جب اس کا سینگ تھک جاتا ہے تو دوسرے سینگ پر بدل کر رکھ لیتی ہے۔ اس سے جو جنبش و حرکت زمین کو ہوتی ہے اس کو زلزلہ کہتے ہیں۔ اس میں استفسار یہ ہے کہ سطح زمین ایک ہی ہے، اس حالت میں جنبش سب زمین کو ہونا چاہیے، زلزلہ سب جگہ یکساں آنا چاہیے۔ گزارش یہ ہے کہ کسی جگہ کم، کسی مقام پر زیادہ، کہیں بالکل نہیں آتا۔ بہرحال جو کیفیت واقعی اور حالت صحیح ہو، اس سے معزز فرمائیے۔ بعید از کرم نہ ہو گا۔ زیادہ نیاز و ادب۔“
آپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”زلزلہ کا سبب مذکورہ زبان زد عوام محض بے اصل ہے۔۔۔ جواب کی حاجت ہم کو اس وقت ہے کہ وہ بیان عوام شرع سے ثابت ہو، اس کے قریب قریب ثبوت صرف ابتدائے آفرنیش زمین کے وقت ہے جب تک پہاڑ پیدا نہ ہوئے تھے۔ عبد الرزاق و فریابی و سعید بن منصور اپنی اپنی سنن اور عبد بن حمید و ابن جریر و ابن المنذر و ابن مردودیہ و ابن ابی حاتم اپنی تفاسیر اور ابو الشیخ کتاب العظمہ اور حاکم بافادہ تصحیح صحیح مستدرک اور بیہقی کتاب الاسماء اور خطیب تاریخ بغداداور ضیائے مقدسی صحیح مختارہ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
قال ان اول شیئ خلق ﷲ القلم فقال لہ اکتب، فقال یارب ومااکتب؟ قال اکتب القدر فجری من ذلک الیوم ماھو کائن الی ان تقوم الساعۃ ثم طوی الکتاب و ارتفع القلم و کان عرشہ علی الماء فارتفع بخار الماء ففتقت منہ السمٰوٰت ثم خلق النون فبسطت الارض علیہ و الارض علی ظھر النون فاضطرب النون فمادت الارض فاثبتت بالجبال۔
(فرمایا: اللہ عزوجل نے ان مخلوقات میں سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اس سے قیامت تک کے تمام مقادیر لکھوائے اور عرش الہی پانی پر تھاپانی کے بخارات اٹھے ان سے آسمان جدا جدا بنائے گئے پھر مولٰی عزوجل نے مچھلی پیدا کی اس پر زمین بچھائی، زمین پشت ماہی پر ہے، مچھلی تڑپی، زمین جھونکے لینے لگی۔ اس پر پہاڑ جما کر بوجھل کردی گئی۔) مگر یہ زلزلہ ساری زمین کو تھا۔ خاص خاص خاص مواضع میں زلزلہ آنا، دوسری جگہ نہ ہونا، اور جہاں ہونا وہاں بھی شدت و خفت میں مختلف ہونا، اس کا سبب وہ نہیں جو عوام بتاتے ہیں۔ سبب حقیقی تو وہی ارادۃاللہ ہے، اور عالمِ اسباب میں باعث اصلی بندوں کے معاصی۔۔۔ اوروجہ وقوع کوہ قاف کے ریشہ کی حرکت ہے۔ حق سبحانہ و تعالی نے تمام زمین کومحیط ایک پہاڑ پیدا کیا ہے، جس کانام قاف ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کے ریشے زمین میں نہ پھیلے ہوں۔۔۔۔۔ جس جگہ زلزلہ کے لئے ارادہ الہی عزوجل ہوتا ہے۔۔۔۔ قاف کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے وہاں کے ریشے کو جنبش دیتا ہے، صرف وہیں زلزلہ آئے گا۔۔۔۔ پھر جہاں خفیف کا حکم ہے اس کے محاذی ریشہ کو آہستہ ہلاتا ہے اور جہاں شدید کا امر ہے وہاں بقوت۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 27، صفحہ 94 تا 96، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4299
تاریخ اجراء: 13 ربیع الآخر 1447ھ / 07 اکتوبر 2025ء