آزمائش کیا ہے اور آزمائش کے وقت کیا کرنا چاہئے؟

آزمائش کی وضاحت اور آزمائش کے وقت کرنے والے کام

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

آزمائش کسے کہتے ہیں؟ اور آزمائش کے وقت کیا کرنا چاہئے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

آزمائش کے لغت میں معانی ہیں: "امتحان،  جانچ پڑتال۔" اور آزمائش کرنے اور امتحان لینے کےمختلف ذریعے ہیں:

1۔ شرعی احکام کے ذریعے آزمائش۔ 2۔ نعمتوں، سہولتوں اورآسائشوں وغیرہ کے ذریعے آزمائش۔ 3۔ مشکلات، مصیبت اور پریشانیوں وغیرہ کے ذریعے آزمائش۔

آزمائش کے وقت کرنے والےکام:

 (1)پہلی صورت والی آزمائش و امتحان میں کامیابی یہ ہے کہ جن شرعی احکامات کا انسان مکلف ہے، وہ اچھے انداز سے بجا لائے۔

(2) دوسری صورت والی آزمائش میں کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ نعمتوں، سہولتوں وغیرہ پر فخر و تکبر نہ کرے، ان کی وجہ سے سرکش نہ ہو جائے بلکہ ان نعمتوں کے ملنے پر اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کرے اور ان نعمتوں کے متعلق جو احکامات ہوں، ان پر عمل کرتا رہے مثلامال ملاتو جائز جگہ خرچ کرے، زکوۃ لازم ہو تو زکوۃ ادا کرے وغیرہ۔

(3) تیسری صورت والی آمائش میں کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ مشکلات و پریشانیوں وغیرہ پر صبر کرے،بے صبری، واویلاوغیرہ نہ کرے اور اللہ پاک کی رضا میں راضی رہے، ان پر شکوہ و شکایت نہ کرے۔

فیروز اللغات میں ہے ”آزمایش: جانچ پڑتال۔ امتحان ۔۔۔ آزمایش کرنا: آزمانا، پرکھنا، جانچنا۔“ (فیروز اللغات، صفحہ 18، فیروز سننز، لاہور)

اعمال و شرعی احکام کے ذریعے آزمائش کے متعلق اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

(الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ)

ترجمہ کنز العرفان: وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی بہت عزت والا،بہت بخشش والا ہے۔ (القرآن، پارہ29، سورۃ الملک، آیت: 2)

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”یہاں زندگی اور موت پیدا کرنے کی حکمت بیان کی جا رہی ہے کہ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ دنیا کی زندگی میں وہ اپنے اَحکامات اور مَمنوعات کے ذریعے تمہاری آزمائش کرے کہ کون زیادہ فرمانبردار، مخلص اور شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق عمل کرنے والا ہے اور کوئی اپنے برے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتا کیونکہ وہ غالب ہے اور گناہگاروں میں سے جو توبہ کرے اسے وہ بخشنے والا ہے۔“ (صراط الجنان، جلد 10، صفحہ 238، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فضل و نعمت کے ذریعے بھی آزمایا جاتا ہے، اور اس میں کامیابی اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

(قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ- وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ- وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ)

ترجمہ کنز العرفان: اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔ (القرآن، پارہ 19، سورۃ النمل، آیت: 40)

مال کی کمی، بھوک، خوف وغیرہا مشکلات اور پریشانیوں کے ذریعے آزمائش کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ- وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ)

ترجمہ کنز الایمان: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔ (القرآن، پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت: 155)

برائی اوربھلائی دونوں طریقوں سےآزمائش ہوتی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ- وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ- وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ)

ترجمہ کنز الایمان: ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں بُرائی اور بھلائی سے، جانچنے کو اور ہماری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ (القرآن، پارہ 17، سورۃ الانبیاء، آیت: 35)

ابتلا کا معنی بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر قرآن، حکیم الامّت، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”آزمانے، جانچنے اور امتحان لینے کو اِبْتِلا۔۔۔ کہتے ہیں۔۔۔ لہٰذا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم تمہارا اِمْتحان لیں گےیا تم میں سے کھرے کھوٹے کو ظاہِر کریں گے۔" (تفسیر نعیمی، جلد 2، صفحہ 95، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

بہار شریعت میں ہے ”بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب (اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ( وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا( استقبال کرتے ہیں)۔۔۔ مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو) صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 799، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

تفسیر صراط الجنان میں ہے ”ہر مسلمان کو چاہئے کہ جب وہ محتاجی یا بیماری وغیرہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو شکوہ شکایت نہ کرے بلکہ اس میں اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہے اور جب اسے مالداری اور صحت وغیرہ کوئی نعمت ملے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے ۔ ترغیب کے لئے یہاں مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر کرنے سے متعلق 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو صبر کرنا چاہے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا فرمادے گا اور صبر سے بہتر اور وسعت والی عطا کسی پر نہیں کی گئی۔

(2) حضر ت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، تاجدار سالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے، تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔

(3) حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روا یت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے چار چیزیں عطا کی گئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی گئی: (۱) شکر کرنے والا دل۔ (۲) اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والی زبان۔ (۳) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن۔ (۴) اس کے مال اور عزت میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔

 (4) حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کامطالبہ فرماتا ہے، اگر وہ اس کا شکر کریں تو اللّٰہ تعالیٰ انہیں زیادہ دینے پر قادر ہے اور اگر وہ ناشکری کریں تووہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنی نعمت کو ان پر عذاب سے بدل دے۔“ (صراط الجنان، جلد 6، صفحہ 318، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4332

تاریخ اجراء: 22 ربیع الآخر 1447ھ / 16 اکتوبر 2025ء