دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا ایسے آوارہ کتوں کو، جو لوگوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتے، اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، انہیں قتل کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
گلیوں میں آوارہ پھرنے والے وہ کتے، جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، انہیں کسی طرح بھی مارنا جائز نہیں، البتہ! جو کتا لوگوں کو کاٹتا یا نقصان پہنچاتا ہو، اسے کسی ایسے طریقے سے مارنا، جائز ہے، جس میں کم سے کم تکلیف ہو، مثلاکسی ترکیب سے تیزچھری کے ساتھ ذبح کرنا۔
بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
خمس من الدواب لا حرج علی من قتلھن: الغُراب و الحِداۃ و الفارۃ و العقرب و الکلب العَقور
ترجمہ: پانچ جانور ایسے ہیں جن کو مارنے والے پر کچھ حرج نہیں ہے، کوا، چیل، چوہا، بچھو اور کاٹنے والا کتا۔ (صحیح البخاری، کتاب جزاء الصید، صفحہ 333، حدیث: 1828، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اجمعوا علی قتل الکلب العَقور و الذی فیہ ضرر بخلاف غیرہ
ترجمہ: فقہائے کرام کا کاٹنے والے اور نقصان دہ کتے کو مارنے پر اجماع ہے، دوسرے کتے کے برخلاف۔ (لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 7، صفحہ 177، دار النوادر، دمشق)
جو کتا تکلیف نہ دیتا ہو، اسے مارنا جائز نہیں۔ چنانچہ البحر الرائق میں ہے
اما حل القتل فما لا یؤذی لا یحل قتلہ، فالکلب الاھلی اذا لم یکن مؤذیا لا یحل قتلہ لان الامر بقتل الکلاب نسخ، فقید القتل بوجوب الایذاء
ترجمہ: بہرحال (کتے کا) قتل حلال ہونا، تو جو اذیت نہ دے اسے مارنا حلال نہیں ہے، لہٰذا پالتو کتا جب تکلیف نہ دے، تو اسے مارنا جائز نہیں کیونکہ کتوں کو مارنے کا حکم منسوخ ہے، تو قتل کے جواز کو اذیت لازم آنے کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ (البحر الرائق، کتاب الحج، باب الجنایات، ج 3، ص 60، مطبوعہ: کوئٹہ)
جسے مارنا جائز ہے، اسے بھی بےجا تکلیف سے مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
ان اللہ تبارک و تعالٰی کتب الاحسان علی کل شیء، فاذا قتلتم فاَحسنوا القِتلۃ و اذا ذبحتم فاَحسِنوا الذَّبح، وَ لْیُحِدَّ احدُکم شَفرتَہ وَ لْیُرِحْ ذبیحتَہ
ترجمہ: بےشک اللہ پاک نے ہر چیز پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جب تم قتل کرو، تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب ذبح کرو، تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، اور چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کر لے اور اور اپنے ذبیحہ کو آرام دے۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد 2، صفحہ 1193، حدیث: 4073، المکتب الاسلامی، بیروت)
اس حدیث کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یعنی انسان ہو یا جانور، مومن ہو یا کافر سب کے ساتھ اس کے مناسب بھلائی و سلوک کرنا لازم ہے۔ ظلم کسی پر جائز نہیں، یہ ہے حُضُور کے رحمۃ للعالمین ہونے کی شان۔۔۔ پتھر کی چھری اور کھٹل تلوار سے ذبح نہ کرو کہ یہ رحم کے خلاف ہے۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 645، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4557
تاریخ اجراء: 27 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 19 دسمبر 2025ء