مشترکہ سفر کے بچے ہوئے پیسوں کا کیا کریں؟

سفر پر جانے کے لیے کرایہ اکٹھا کیا اور اس میں سے کچھ بچ گیا تو اس کا کیا کریں

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہم نے کراچی جانے کے لیے ٹرین کے کرایہ کی مد میں 2000 روپے ہر بندے سے جمع کیا ہے، اب اس میں سے تین تین سو روپے سب کے بچ گئے ہیں، تو کیا ان کرایہ دینے والوں کو بتائے بغیر وہ رقم مسجد کے چندے میں دے سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں کرایہ کی مد میں لی گئی رقم میں سے، جس کے جتنے پیسے بچے ہیں، وہ اسے واپس کرنا فرض ہے یا وہ جس کام میں لگانے کی اجازت دیں، اس میں لگا دیے جائیں، اُن کی اِجازت کے بغیر مسجد کے چندے یا کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ رقم لینے والوں کے ہاتھ میں امانت تھی، کہ وہ ان کی طرف سے کرائے کی ادائیگی کے وکیل تھے، تو جتنی رقم باقی بچی ،وہ حق دار کو واپس کی جائے گی، یا اس کی رضامندی سے دوسرے کسی جائزکام مثلامسجد کے چندے میں دے دی جائے۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے

أنه أمين فيما في يده كالمودع

یعنی: وکیل کے پاس موکل کی جو چیز ہوتی ہے، وہ اس میں امین ہوتا ہے جیسا کہ مودَع (یعنی جس کے پاس ودیعت رکھوائی جائے، وہ) امین ہوتا ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، جلد 3، صفحہ 567، مطبوعہ: کوئٹہ)

امانت کا مال بچ جانے کی صورت میں واپس کرنا ضروری ہے، چنانچہ درزی کے پاس بچا ہوا کپڑا مالک کو واپس کرنے کے متعلق جامع الفصولین میں ہے

خاطه وفضل منه شيء فسرق ضمنه وكذا الاسكاف لو دفع إليه صرم ففضل منه شيء ضمنه إذ أثبت يده على مال الغير بلا إذنه إذ المالك إنما سلم إليه للقطع لا غير فإذا قطع يجب عليه رد الزيادة

یعنی: درزی نے کپڑا سلائی کیا اور اس میں سے کچھ کپڑا بچ گیا اور ( درزی کی غفلت سے) وہ کپڑا چوری ہوگیا، تو درزی اس کا ضامن ہوگا، اسی طرح موچی کو جوتا سلائی کرنے کے لیے چمڑا دیا، جس سے کچھ چمڑا بچ گیا، تو وہ اس چمڑے کا ضامن ہوگا کیونکہ اس نے غیر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کیا، کیونکہ مالک نے اسے کاٹنے (اور سلائی کرنے) کے لیے دیا تھا، نہ کہ کسی اور کے لیے، تو جب اس نے کاٹ لیا، تو بچا ہوا چمڑا (یا کپڑا) مالک کو واپس کرنا اس پر لازم ہے۔ (جامع الفصولین، الجزء الثانی، الفصل الثالث و الثلاثون فی انواع الضمانات الواجبۃ، صفحہ 129، مطبوعہ: افغانستان)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4511

تاریخ اجراء: 16 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 08 دسمبر 2025ء