
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شہید کی جو فضیلت قرآن میں ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے، کیا یہ صرف اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے شہید کے لیے ہے یا جو شہید حکمی ہو جیسے ناحق قتل کیا گیا وغیرہ، اس کے لیے بھی ہے؟ نیز اگر کوئی قرآن کی اس فضیلت کو صرف اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے شہید کے لیے مانے، شہید حکمی کے لیے نہ مانے تو کیا یہ کفر ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
راہِ خدا میں شہید ہونے والوں کی ایک عظیم فضیلت بعدِ وفات ان کا ممتاز اور اعلی زندگی کے ساتھ حیات ہونا اور رزق دیا جانا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے اور ائمہ دین کی تصریحات کے مطابق موت کے بعد زندگی اور رزق عطا کیا جانا شہید حقیقی کے ساتھ شہید حکمی کو بھی شامل ہے۔ شہید حقیقی حیات بعد از موت پر قرآن کریم کی نص قطعی موجود ہونے کی وجہ سے اس کا مطلقاً انکار کرنے والا دائرۂ اسلام سے ہی خارج ہے جبکہ صرف شہید حکمی سے اس فضیلت کا انکار کرنے والا جاہل و خطا کار ہے۔
اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ- بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ (169)﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ (پارہ 4، سورۃ آل عمران 3، آیت 169)
نیز ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ- بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(154)﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔ (پارہ 2، سورۃ البقرۃ 2، آیت 154)
شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تفسیرات احمدیہ کے حوالے سے اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:
ثم الشهداء في الحقيقة من يكون كذلك في حق أحكام الدنيا و الآخرة، و هو من يكون مسلما طاهرا بالغا قتل بحديد ظلمًا، و لم يجب به مال أو وجد ميتا جريحا في المعركة و لم يرتث، فإنه يجري عليه أحكام الدنيا حيث لا يغسل و لا يكفن و يصلّى عليه و له المرتبة العليا في الآخرة على ما نطقت به الآثار، و منهم من لا يجري عليه أحكام الدنيا، و يكون لهم في الآخرة فضل مرتبة؛ كالغرقى و الحرقي و الهدمي و القتلى في الحد، و من مات في طريق اللہ مثل العلم و الجهاد و الحج، و من ماتت من نفاسها، و من مات من استطلاق البطن على ما ورد في الحديث
ترجمہ: پھر در حقیقت شہدا وہ ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کے احکام کی بابت ایسے ہی (یعنی شہید) ہوں، اور یہ وہ شخص ہے جو مسلمان، پاک، بالغ ہو، جسے ظلماً کسی آہنی شے کے ساتھ قتل کیا گیا ہو، اور اس قتل کے بدلے میں کوئی مال واجب نہ ہوا ہو، یا وہ جنگ کے میدان میں زخمی حالت میں مردہ پایا گیا ہو اور اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ ہو، تو ایسے شخص پر دنیا کے احکام جاری ہوں گے، بایں طور کہ نہ اسے غسل دیا جائے گا، نہ کفن پہنایا جائے گا، اور اس پر نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اور آخرت میں اس کے لیے اعلیٰ درجہ و بلند مقام ہے، جیسا کہ اس پر احادیث ناطق ہے۔ اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن پر دنیا کے احکام جاری نہیں ہوتے، (لیکن) آخرت میں ان کے لیے بلند رتبے والی فضیلت ہوگی: جیسے کہ ڈوب کر مرنے والا، آگ میں جل کر مرنے والا، عمارت ڈھنے سے دب کر مرنے والا، شرعی حد میں قتل ہونے والا، اور وہ جو اللہ پاک کی راہ میں فوت ہو مثلاً علم دین کے حصول، جہاد یا حج کے دوران مرنے والا، اور زچگی سے مرنے والی عورت، اور دست کی بیماری سے مرنے والا شخص، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ (الاكليل على مدارك، جلد 1، صفحہ 681، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”جو مسلمان ظلماً قتل ہو جائے وہ شہید ہے، ان میں سے جو دین کی حفاظت کرتا ہوا قتل ہو، وہ بہت اعلی درجہ والا ہے، مگر یہ حیات ابدی ہر شہید کو عطا ہوتی ہے۔ ... اگرچہ یہ آیت شہداءِ احد کے حق میں اتری، مگر تاقیامت تمام شہدا کی زندگی ثابت فرما رہی ہے، کیونکہ آیت کی عبارت عام ہے اس میں کوئی قید نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شہدا کے جسم و روح دونوں ہی زندہ ہیں، اسی لیے ان کے اجسام قبر میں گلنے سے محفوظ رہتے ہیں، جس کا بکثرت مشاہدہ ہوا۔ البتہ ان کی حیات ہماری حِس سے بالاتر ہے، اس لیے ان پر موت کے بعض احکام جاری ہو جاتے ہیں۔“ (تفسیر نور العرفان، صفحه 36 و 114، فرید بک ڈپو لمیٹڈ، دہلی)
صحیح مسلم، مصابیح السنہ، مشکوۃ المصابیح اور کنز العمال وغیرہ کی حدیث پاک میں ہے:
عن أبي هريرة قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: ما تعدون الشهيد فيكم؟ قالوا: يا رسول اللہ، من قتل في سبيل اللہ فهو شهيد، قال: إن شهداء أمتي إذا لقليل، قالوا: فمن هم يا رسول اللہ؟ قال: من قتل في سبيل اللہ فهو شهيد، و من مات في سبيل اللہ فهو شهيد، ومن مات في الطاعون فهو شهيد، ومن مات في البطن فهو شهيد
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے فرمایا: تم اپنے درمیان شہید کسے شمار کرتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم! جو اللہ کی راہ میں قتل ہو، تو وہ شہید ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تب تو میری امت کے شہدا بہت کم ہوں گے! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم! پھر شہید کون ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے، وہ شہید ہے، اور جو اللہ کی راہ میں مر جائے، وہ شہید ہے، اور جو طاعون میں مرے، وہ شہید ہے، اور جو پیٹ کی بیماری میں مرے، وہ شہید ہے۔ (صحیح مسلم، كتاب الإمارة، باب بيان الشهداء، جلد 6، صفحہ 51، حدیث 1915، دار الطباعة العامرة، تركيا)
علامہ قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:
و من مات بالطاعون، أو بوجع في بطن ملحق بمن قتل في سبيل اللہ، لمشاركته إياه في بعض ما ينال من الكرامة، بسبب ما كابده من الشدة، لا في جملة الأحكام و الفضائل
ترجمہ: اور جو شخص طاعون سے ، یا پیٹ کی بیماری سے مرے، وہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کے ساتھ ملحق ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ شہید کو حاصل ہونے والی عزت و کرامت کے کچھ حصہ میں اس کا شریک ہوتا ہے، بسبب اس کے جو اس نے تکلیف و مصیبت برداشت کی، (لیکن یہ شمولیت) تمام احکام اور فضیلتوں میں نہیں۔ (تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة، كتاب الجهاد، جلد 2، صفحہ 588، مطبوعه کویت)
اسی کو علامہ شرف الدین طیبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی شرح مشکوۃ میں، علامہ شمس الدین کرمانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی شرح بخاری میں، علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے عمدۃ القاری میں، اور دیگر علمائے کرام نے اپنی کتب میں نقل فرمایا۔ (شرح المشكاة للطيبي، كتاب الجهاد، جلد 8، صفحہ 2639، مطبوعه ریاض) (الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري، كتاب الطب، جلد 21، صفحه 18، دار إحياء التراث العربي، بيروت) (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، باب الرقى بالقرآن و المعوذات، جلد 21، صفحہ 261، دار الفکر، بیروت)
علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ قاضی بیضاوی علیہ الرحمۃ کے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
و قد جمع شيخ مشايخنا الحافظ جلال الدين السيوطي ما ورد من أنواع الشهادة الحكمية في كراسة، منهم: الغريق و الحريق و المهدوم و الغريب و المرابط، و من مات يوم الجمعة، أو ليلته وغير ذلك، والمعنى أنهم يشاركون الشهداء في نوع من المئويات التي يستحقها الشهداء لا المساواة في جميع أنواعها
ترجمہ: ہمارے شیخ الشیوخ حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شہادتِ حکمی کی اقسام میں جو کچھ وارد ہے، انہیں ایک رسالے میں جمع کیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: ڈوب کر، جل کر ، کسی عمارت کے نیچے دب کر (مرنے والے)، اور پردیسی، سرحد کے پہرے دار اور جمعہ کے دن یا اس کی رات میں فوت ہونے والے، وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ شہدا کے ساتھ ان سینکڑوں فضائل میں سے بعض میں شریک ہوتے ہیں جن کے شہدا مستحق ٹھہرتے ہیں، نہ کہ ان کے ہر پہلو میں برابر ہوتے ہیں۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الجهاد، جلد 6، صفحہ 2469، دار الفكر، بيروت)
علامہ ابو محمد ابن عطیہ اندلسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
و هؤلاء طبقات وأحوال مختلفة، يجمعها أنهم يرزقون
ترجمہ: اور یہ شہدا مختلف درجات اور احوال کے ہوتے ہیں، جنہیں ایک چیز جمع کرتی ہے کہ ان سب کو رزق دیا جاتا ہے۔ (المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، جلد 1، صفحہ 540، دار الكتب العلمية، بيروت)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
قال علماؤنا: أحوال الشهداء طبقات مختلفة و منازل متباينة يجمعها أنهم يرزقون، و قد تقدم قوله صلى اللہ عليه و سلم: "من مات مريضا مات شهيدا، و غدي و ريح عليه برزقه من الجنة" و هذا نص في أن الشهداء مختلفو الحال
ترجمہ: ہمارے علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ شہدا کے احوال مختلف درجات اور متفرق منازل کے ہوتے ہیں، (البتہ) رزق دئیے جانے کی بات میں وہ سب جمع ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم کا یہ فرمان گزر چکا ہے کہ "جو شخص بیماری کی حالت میں فوت ہو، وہ شہید ہے، اور اس پر صبح و شام جنت کا رزق پیش کیا جاتا ہے۔" یہ حدیث پاک اس بات کی صریح دلیل ہے کہ شہدا مختلف الحال ہوتے ہیں (سب یکساں نہیں ہوتے، البتہ رزق سب کو ملتا ہے)۔ (التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة ، باب ما جاء أن أرواح الشهداء في الجنة دون أرواح غيرهم، جلد 1، صفحہ 432، مطبوعه رياض)
علامہ احمد بن ابی سعید ملا جیون رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
و بالجملة فحياة الشهداء قدر ما يذوق النعيم معلومة بالنص القطعي
ترجمہ: اور خلاصۂ کلام یہ کہ شہدائے کرام کی حیات اس قدر کہ وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں، نص قطعی سے ثابت ہے۔ (التفسيرات الاحمدية، سورة البقرة، صفحہ 50- 51، دار الكتب العلمية، بیروت)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”شہدا کی زندگی قطعی یقینی ہے اس کا انکار کفر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اس کی تصریح ہے، ہاں نوعیت حیات ظنی ہے جن میں کسی خاص نوعیت کا انکار کفر نہ ہو گا۔ (البتہ) انبیاء کرام کی زندگی کا انکار سخت گمراہی ہے۔ اگرچہ شہادت کی بہت قسمیں اور شہید کئی طرح کے ہیں مگر اول درجہ کی شہادت یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں دینی خدمت کے سلسلہ میں نصیب ہو۔ “ (تفسیر نعیمی، جلد 2، صفحہ 88، مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-729
تاریخ اجراء: 09 ذو القعدة الحرام 1446ھ / 7 مئی 2025ء