عمرہ اسکیم کیلئے قرعہ اندازی میں شامل ہونا کیسا؟

تسبیح خرید کر عمرہ کی قرعہ اندازی میں شامل ہونے والی اسکیم کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں ایک عمرہ اسکیم نکلی ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ 250 لوگوں کومعمولی سی قیمت کی تسبیح 1000 روپے میں بیچی جاتی ہے اور لوگ عمرہ کی لالچ میں آکر وہ تسبیح خریدلیتے ہیں، پھر تسبیح خریدنے والوں کا نام قرعہ اندازی میں شامل کردیا جاتا ہے 250 افراد مکمل ہونے پر قرعہ اندازی ہوتی ہے، جس کانام نکلے اس کو عمرہ پر بھیج دیا جاتا ہے اور بقیہ افراد صرف تسبیح کے مالک ہوتے ہیں، کیا یہ طریقہ اختیار کرناجائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ حسنِ نیت کے ساتھ کسی کو عمرہ کروانا اور اس کے اسباب مہیا کرنایقیناً باعثِ ثواب ہے، کئی مسلمان عمرہ کے نام پر مختلف اسکیمیں شروع کرتے بھی ہیں، لیکن یاد رہے کہ ایسی اسکیموں کا شرعی اعتبار سے سو فیصد درست ہونا بھی ضروری ہے،ورنہ ثواب کے بجائے الٹا گناہ ہو گا اور پھر عمرے جیسی مقدس عبادت کے نام پر ناجائز امور کو عام کرنا تو اور بھی سخت تر ہوگا، لہذا اس طرح کی کوئی بھی اسکیم شروع کرنے سے قبل معتمد و مستند مفتیانِ کرام سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے۔

اور جہاں تک سوال میں ذکر کردہ اسکیم کا تعلق ہے، تو یہ جوئے پرمشتمل ہے،لہذا ایسی اسکیم چلانا اور اس میں شامل ہونا، ناجائز و حرام اور گناہ ہے، بلکہ جتنے بھی افراد اس میں شامل ہوکر گناہ کے مرتکب ہوں گے، انہیں تو گناہ ملے گا، لیکن ان سب کے برابر ایسی اسکیم شروع کرنے والے کو بھی گناہ ملتا رہے گا۔ بہرحال جوا ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ اس طرح کی اسکیموں میں شامل ہونے والے افراد کا اصل مقصد کسی بھی طریقے سے انعام کا حصول ہوتا ہے، اگرچہ اس تک پہنچنے کے لئے کسی حد تک نقصان بھی برداشت کرنا پڑے، اسی لالچ میں کثیر لوگ اپنا سرمایہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں، حالانکہ دوسری جانب دیکھا جائے، تو انعام کا حصول یقینی نہیں ہوتا،بلکہ ایک موہوم سی بات ہوتی ہے اور امیدموہوم کی بنا پر اپنی رقم داؤ پہ لگانے کا نام ہی تو شرعاً جوا ہے۔ اب ہماری صورت میں دیکھا جائے، تو یہاں بھی لوگوں کا اصل مقصد تسبیح خریدنا نہیں، بلکہ عمرہ پیکج کے حصول کے لئے قرعہ اندازی میں شامل ہونا ہے اور تسبیح کی خریداری کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوتا، لہذا نہ چاہتے ہوئے اور کچھ نقصان برداشت کرتے ہوئے بھی لوگ یہ تسبیح خرید رہے ہوتے ہیں، حالانکہ اس اسکیم سے ہٹ کر دیکھا جائے، تو کوئی بھی عاقل شخص معمولی قیمت کی تسبیح ہزار روپے میں خریدنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتا، الغرض یہاں بھی تسبیح خریدنے والا اپنے مقصدِ اصلی (قرعہ اندازی میں شامل ہونے) کے لئے معمولی چیز کے بدلے کافی زیادہ رقم داؤ پر لگاتا ہے اور دوسری جانب عمرہ پیکج ملنا ایک موہوم / غیر یقینی بات ہے، لہذا یہ بھی شرعاً جوا ہے۔

جوئے کی حرمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

ترجمہ: اے ایمان والو! شراب اور جوااور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام،تو ان سے بچتے رہنا، کہ تم فلاح پاؤ۔ (پارہ 7، سورۃ المائدہ، آیت 90)

جوئے کی تعریف کرتے ہوئے تبیین الحقائق میں ہے

القمار من القمر الذی يزاد تارة وينقص اخرى و سمي القمار قمارا، لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه و يجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔و هو حرام بالنص

ترجمہ: قمار، قمر سے مشتق ہے، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے، قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتاہے کہ جوئےبازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلاجائے اور یہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے اور یہ نص سے حرام ہے۔ (تبیین الحقائق، مسائل شتی، جلد 6، صفحہ 227، مطبوعہ ملتان)

اسی بارے میں مبسوطِ سرخسی میں ہے:

ثم ھذا تعلیق استحقاق المال بالخطر وھو قمار والقمار حرام فی شریعتنا

 ترجمہ: پھر یہ مال کے مستحق ہونے کوخطرپرمعلق کرناہے اوریہ قمارہے اورقمارہماری شریعت میں حرام ہے۔ (مبسوطِ سرخسی، جلد 7، صفحہ 76، مطبوعہ، دار المعرفۃ، بیروت)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایک صورت کہ جس میں ایک (بے قیمت) ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا ، کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ”حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں ہر گز بیع و شراوغیرہ کوئی عقد شرعی نہیں، بلکہ صرف طمع کے جال میں لوگوں کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا ہے اور یہی قمار ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 330، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

یہاں اصل مقصد خریدوفروخت نہیں،بلکہ قرعہ اندازی میں شامل ہونا ہے اور اسی وجہ سے لوگ اپنا سرمایہ داؤ پہ لگاتے ہیں۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”اگر ٹکٹ ہی بکتا تو خریدار کیا ایسےاحمق تھے کہ روپیہ دے کر دو انگل کا محض بیکار پرچہ کاغذ مول لیتے جسے کوئی دو کوڑی کو بھی نہ پوچھے گا، لاجرم بیع وغیرہ سب بالائے طاق ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 333، رضا فاؤنڈیشن، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور(

اسی بارے میں علمائے اہلسنت کی معروف کتاب ”جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے“ میں ہے: ”جیسا کہ واضح ہوگیا سامان کی خریداری سے اصل مقصود ممبر سازی کا کمیشن حاصل کرنا ہے، یعنی طمع کے جال میں لوگوں کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا اور یہی قمار ہے۔ امید موہوم پر پانسا ڈالنا یوں ہے کہ ممبر بنا لینا یقینی نہیں لہذا یہ معاملہ مجموعی حیثیت سے قمار ہوا۔ (جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے، جلد 2، صفحہ 336، مطبوعہ الجامعة الاشرفيه مباركپور، انڈیا)

فتاوی بحرالعلوم میں اس سے ملتی جلتی دو اسکیموں کے بارے میں سوال ہوا جن کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک اسکیم کی مدت آٹھ مہینے ہے جس میں 500 ممبران 200 روپے جمع کروانے کے ساتھ شرکت کریں گے ہر مہینے قرعہ اندازی ہوگی جس کا نام نکلے گا اس کو بڑا انعام دیا جائے اور آٹھ ماہ میں جن کا نام نہ نکلا ان کے پیسوں کے عوض ان کو کچھ نہ کچھ سامان دے دیا جائے گا۔ دوسری اسکیم: اس کی مدت بارہ مہینے ہے جس میں دو ہزار افراد ہر ماہ 300 روپے جمع کروائیں گے اور ہر مہینے ہی قرعہ اندازی ہوا کرے گی جس کانام قرعہ اندازی میں نکلا اس کو بمع فیملی حج کروایا جائے گا اور جن کا بارہ ماہ میں نام نہ نکلا انہیں ان کے پیسوں کے بدلے ہندوستان کے مزارات کی زیارتیں کروائی جائیں گی۔۔۔ کیا شرعی نقطہ نظر سے ایسی اسکیم چلانا اور اس سے حصہ لینا جائز ہے؟ تو جوابا  ارشاد فرمایا گیا: ”یہ تو صاف صاف جوئے کی صورت ہے معاوضہ میں روپے کی جگہ سامان یا حج و زیارۃ رکھنا یا اس کا نام انعام رکھ دینے سے شئی کی حقیقت نہیں بدلے گی جوئے میں یہی ہوتا ہے کہ زائد رقم کی امید میں ہر آدمی اپنی رقم لگاتا ہے مگر پوری رقم وہ لیتا ہے جس کا پانسہ آتا ہے اسی طرح اس کا ہر ممبر خود دھوکا کھاتا ہے اور دوسروں کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔۔۔ الغرض یہ معاوضہ ہر طرح سے غیر اسلامی اور خلاف شرع ہے اس کو لینا ناجائزو حرام ہے۔“ (فتاوی بحرالعلوم، جلد 4، صفحہ 77، مطبوعہ ضیاء اکیڈمی، کراچی)

بحرین کے ادارے AAOIFIکی طرف سے مرتب کردہ کتاب’’المعاییر الشرعیہ‘‘جسے مسلم دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے،اس میں خریداری کی بنیاد پہ کی جانے والی قرعہ اندازی کی مخصوص شرائط بیان کی گئی ہیں،جو درج ذیل ہیں:

ﻳﺠﻮز منح جائزۃ یشترط للدخول فی السحب علیھا شراء سلعۃ او خدمۃ بالشروط الآتیۃ: (1) الایزاد فی ثمن السلعۃ اوالخدمۃ المشترط شراؤھا للدخول فی السحب عن سعرھا بدون السحب۔ (2) ان تکون السلعۃ او الخدمۃ المشترط شراؤھا للدخول فی السحب ممایقصد شراؤہ بصرف النظر عن الجائزۃ، و علی المؤسسۃ تنبیہ الجمھور الی ذلک عند الاعلان عن الجائزۃ فان غلب علی الظن ان الداخلین فی السحب لایشترونھا الا لغرض الحصول علی الجائزۃ فلایجوز وضع الجائزۃ فی ھذہ الحال (3) ان تکون فرص الفوز فی کل سحب متساویۃ لجمیع الداخلین فی السحب (4)الایقصد بوضع الجائزۃ الحاق الضرر بالآخرین

ترجمہ: سامان یا خدمت خریدنے کی شرط پرقرعہ اندازی کرنا اور انعام دینا آنے والی شرائط کے ساتھ جائز ہے: (1) قرعہ اندازی میں شامل ہونے کے لیے جس سامان یا خدمت کا خریدنا شرط ہے اس کی قیمت میں بغیر قرعہ اندازی والی قیمت سے اضافہ نہ کیا جائے۔ (2) قرعہ اندازی میں شامل ہونے کے لیے جس سامان یا خدمت کا خریدنا شرط ہے، اسی سامان یا خدمت کو خریدنا مقصود ہو قطع نظر انعام کے،انعام کا اعلان کرتے ہوئے تمام لوگوں کومتنبہ کرناکمپنی پر لازم ہے۔ اگر ظن غالب ہو کہ قرعہ اندازی میں شامل ہونے والے سامان نہیں خریدیں گے مگر انعام لینے کی غرض سے، تو اس صورت میں انعا م مقرر کرنا جائز نہیں۔ (3) قرعہ اندازی میں شامل ہونے والے تمام شرکاء کے لیے کامیابی کا برابر امکان ہو۔(4) انعام مقرر کرنے سے دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ (المعاییر الشرعیہ، المعیار الشرعی رقم: 55، المسابقات و الجوائز، صفحہ 1287، مطبوعہ، بحرین)

ایسی اسکیم کو ختم کرنا لازم ہے،ورنہ جتنے بھی افراد اس میں شامل ہوں گے انہیں گناہ ملے گا اور ان سب کے برابر شروع کرے والے کو بھی ملتا رہے گا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا، و من دعاالی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا

ترجمہ: جو کسی کو سیدھے راستے کی طرف بلائے تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے، اُن سب کے برابر اس (بلانے والے) کو بھی ثواب ملے گا ،اور پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی، اور جو برائی کی طرف بلائے تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے ان سب کے برابر اس کو بھی گناہ ملے گا، اور پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ (صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ الخ، جلد 2، صفحہ 341، مطبوعہ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: GUJ-0033

تاریخ اجراء: 17 ربیع الاول 1447ھ / 11 ستمبر 2025ء